Mchoudhary

Add To collaction

تحمّل عشق بقلم ملیحہ چودھری

قسط22

...................

"یا الٰہی رحم کر !! اسماء بیگم ٹی وی کے سامنے بیٹھی تھی رات کے ڈھائی بج رہے تھے.. پورے گھر میں ایک عجیب سی خاموشی چھائی ہوئی تھی رہ رہ کر اُنکو سمعان شایان اور محسین کی فکر ستا رہی تھی.. جو ایک ہفتے سے باہر گئے ہوئے تھے.. 

"اللّٰہ تعالیٰ ملک میں یہ کیا حال ہو رہا ہے ؟ گھر کی بچیاں گھروں میں ہی محفوظ نہیں ہے !! دہلتے دل پر ہاتھ رکھتے اسماء بیگم نیوز میں دیکھ کر بڑ بڑائی..

" اللہ جی سب کو اپنی حفظ و امان میں رکھے آمین ثم آمین یا رب العالمین !! اسماء بیگم سچے دل سے دعا گو تھی.. 

اُنہونے پاس رکھا فون اٹھایا اور سمعان پر کال کرنے لگی نہ جانے اُنکا دل سمعان اور جیری کی طرف سے بہت خوف زدہ تھا.. کئی کال کرنے کے بعد بھی جب فون نہیں اٹھایا گیا تو انہوں نے جلدی سے جیری کے موبائل پر کال کی لیکن وہ بھی سوئچ آف جا رہا تھا..

"یہ بچے کال کیوں نہیں اٹھا رہے ہیں ؟ وُہ پریشان سی موبائل کو دیکھ رہی تھی جب پیچھے سے حلیمہ بیگم نے پُکارا تھا....

"حلیمہ بیگم اسماء بیگم کی چھوٹی بہن ہونے کے ساتھ اُنکی دیورانی بھی تھی دونوں  بہنیں ایک دوسرے سے بےانتہا محبّت کرتی تھی..

"آپی !! آپ یہاں اتنی رات گئے کیوں بیٹھی ہے ؟ پریشان سی حلیمہ بیگم نے اپنی بڑی بہن سے پوچھا جو حد درجہ بہت پریشان ہونے کے ساتھ ساتھ خوف زدہ بھی نظر آ رہی تھی...

اصل میں حلیمہ بیگم سو رہی تھی رات کو پیاس لگی تو پانی پینے کے لیے اٹھی تو دیکھا کہ اُنکے کمرے میں پانی موجود نہیں ہے  وہ اب اپنے کمرے سے نکل کر لاؤنج سے ہوتے کچن میں ہی جا رہی تھی جب اُنہونے لاؤنج میں ٹی وی چلتا دیکھا ..

"یہ بچے بھی نہ سوچتے ہی نہیں کس وقت ٹی وی دیکھنا ہے کس وقت نہیں !!! خود سے بات کرتے ہوئے جیسے ہی حلیمہ بیگم اُنکو ڈاٹ ڈپٹ کرنے کے لیے لاؤنج میں آئی تو دیکھا کہ وہاں بچے نہیں بلکہ اُنکی امّاں یعنی کے اسماء بیگم بیٹھی تھی .. ٹی وی پر کوئی نیوز چل رہی تھی جبکہ اسماء بیگم کسی کو فون ملانے کی سعی کر رہی تھی...... وُہ جلدی سے فکرمندی سے اُنکی طرف بڑھی اور اُنکو آواز دی...

"ح ح حلیمہ د دیکھ و وُہ م ملک میں ک کتنا بُرا حال ہے ؟ اُنہونے نے اپنی چھوٹی بہن کا دھیان ٹی وی کی طرف مذول کروایا تھا... حلیمہ بیگم نے ٹی وی کی جانب دیکھا جہاں دھوں دھار گولیوں کی بارش ہو رہی تھی ایک طرف ملک کے دشمن تھے تو دوسری طرف اُنکے محافظ ہر جگہ خون بہہ رہا تھا کوئی زخمی تھا تو کوئی ملک کے لیے جان قربان کر چکا تھا... ٹی وی رپورٹر چیخ چیخ کر اُنکا حال بیان کے رہی تھی... یہ کوئی شاپنگ مال تھا جس میں یہ حال ہوا پڑا تھا......

حواس تو سلب حلیمہ بیگم کے بھی ہو گئے تھے. لیکن وہ خود کو جلدی سمبھال گئی تھی اور اپنی بڑی بہن کے پاس بیٹھتی ہوئی گویا ہوئی...

"آپی ریلیکس !! یہ حال آئے روز کہیں نا کہیں ہوتا ہی ہے آپی ! ہم سب صرف دعا کے سکتے ہیں باقی اللّٰہ تعالیٰ کے سپرد چھوڑتے ہیں.. سمجھاتے ہوئے اُنہونے جیسے خود کو بھی تسلّی دی....

"نہیں حلیمہ !!! میرا دل بہت گھبرا رہا ہے پتہ ہے سمعان اور جیری کے حوالے سے میرے ذہن میں۔ بہت برے برے خیالات آ رہے ہیں.. حلیمہ کا ہاتھ خود کےہاتھ میں بھینچھتے ہوئے اُنہونے نے دھندلائ آنکھوں سے اپنی بہن کو دیکھا حلیمہ کو محسوس ہوا تھا اسماء بیگم کے ہاتھ ٹھنڈے برف پڑ رہے تھے جبکہ چہرے کا رنگ زرد پڑ گیا تھا......

"آپی آپ دعا کریں جب تک ہمارے بچوں کے ساتھ اُنکی ماؤں کی دعائیں ہے اُنکو کچھ نہیں ہو سکتا.!!! اُنہونے ایک بار  پھر سمجھایا جس پر اسماء بیگم خاموشی سے گردن ہلاتے ہوئے اپنی جگہ سے کھڑی ہو گئی تھی...

اپنے کمرے میں آ کر انہوں نے وضو کی اور پھر لائٹ آف کرتے ہوئے برابر والے کمرے میں آ گئی دو رکعت نماز نفل ادا کی اور اللہ کے حضور میں دعا مانگنے لگی تھی ...

درود شریف پڑھنے کے بعد اُنہونے بارگاہِ الٰہی کے سامنے جیسے ہی ہاتھ اٹھایا بے شمار آنسوؤں نے منظر ہی بدل ڈالا تھا.. اسماء بیگم جانتی تھی شام کے خون کا پیاسا وُہ شخص ابھی بھی زندہ ہے وُہ بھڑکتی آگ میں جلتا وجود وُہ چینخیں چاہ کر بھی وُہ بھول نہیں پاتی تھی

"یا رب العالمین!!! تُو جانتا ہے اور بے پناہ محبت کرنے والا بھی ہے دلوں کے حال سے تیرے علاوہ کوئی واقف نہیں ہے اور نہ ہی ہو سکتا.. تُو اپنے بندوں سے نینیانوے ماؤں سے بھی زیادہ محبّت کرتا ہے.. اے پروردگار عالم !! میں بھلے ہی اُسکی جسمانی طور پر ماں نہیں ہوں میں نے اسکو جنم نہیں دیا لیکن اے رب العالمین!!!!! جیسے حضرت آمنہ نے تیری محبوب کو جنم دیا تھا لیکن اسکو پالا پوسا تو حضرت حلیمہ نے ہے ایسے ہی اس بچے کی پرورش میں نے کی ہے میں جانتی ہوں رب میں بہت گنہگار ہوں لیکن یا رب العالمین!! تُو میرے بچے کی حفاظت کرنا میرے محبوب اپنے محبوب کے صدقے سے اسکو ہر عافیت سے محفوظ رکھنا یا اللّٰہ! وُہ بہت پیارا بچہ ہے آج تک اسکو دکھوں کے علاوہ محبّت میسّر نہیں ہوئی تو اُسکے بابا سے ملا دیں اسکو .. ایک گھنٹہ دعا کرنے کے بعد دل کو کچھ سکون میسّر ہوا تو جائے نماز کی تہہ کرتے ہوئے وُہ اپنے کمرے میں آئی تھی بغیر آہٹ کیے سالوں سے چھپائی تسویر جسکو آج تک کسی شخص نے نہیں دیکھی تھی اسکو نکالی اور گیسٹ ہاؤس میں آ کر اسکو سینے لگائے رونے لگی تھی.....

کہنے کو اُنکا کوئی آپس میں رشتا نہیں تھا لیکن شام کے ناطے بہت سے رشتے نہ ہونے کے باوجود بھی تھے.... اور سب سے بڑھ کر اُنکے درمیان انسانیت کا رشتا تھا جو ہر رشتے پر بھاری تھا

یہ دلوں کے ہی رشتے ہوتے ہیں جو ایک دوسرے سے اس قدر جڑے ہوئے ہوتے ہے کہ سو کوس دور کے خطرے اُنکی خوشیاں سب محسوس کر لیتے ہیں..

دل سے بندی ایک ڈور
جو دل سے دل تک جاتی ہے
رشتوں کی بگیاں مہک جاتی ہے

...................................💖💖💖💖💖

ایڈریس کے مطابق وُہ اُس جنگل تک پہنچ گئی تھی بے خوف نڈر آنکھوں اٹھائے وُہ کچھ پا لینے کی حد تک پرسکون تھی۔۔۔ اُسنے اَپنے قدم آگے بڑھائے تھے.. اور آج اُس جگہ پہنچ گئی تھی جس کی تلاش میں پورا ملک لگا تھا... نزدیک تو وُہ بچپن سے ہی تھی لیکن نزدیک ہونے کے باوجود اس وقت وُہ انجان تھی...

لیکن آج وُہ منزل کے قریب بھی تھی اور اسکو ختم کرنے کی ہمت بھی خود میں پاتی تھی. 

آدھا گھنٹہ مسلسل چلنے کے بعد آخر کار وہ پہنچ ہی گئی تھی... کالی ٹائٹ جینز میں کالا ہی قمیض پہن رکھا تھا اُس پر براؤن رنگ کی لیدر کی جیکٹ پہنی ہوئی تھی ایک کان میں بلیو ٹوتھ لگائے بالوں کو ہائی پونی میں مقید کیے ہوئے تھے.....

بے خوف آنکھیں ، ہے خوف بولتے لب وہ ہر چیز سے بےخوف نڈر تھی وُہ کہیں سے بھی چار مہینے والی جیرش روہیل خان نہیں تھی بلکہ یہ تو ایک بہادر لڑکی کھڑی تھی جسکی آنکھوں میں کوئی ڈر نہیں تھا....... 

تیز تیز ہوائیں چل رہی تھی اس جنگل میں گونجتی خوفناک آوازیں جسکو سن کر اسکو سکون مل رہا تھا.... لائٹوں سے روشن ہوا یہ جنگل اس وقت وحشت کا منہ بولتا ثبوت تھا...... سب وحشت زدہ تھے جبکہ وُہ پرسکون ہر احساس سے عاری تھی...

مسٹر ایکس!!! اسکو دیکھ اپنی جگہ سے ہی ہل گیا .. کئی لمحے اسکو " ایس آئی ڈی " کی ایجینٹ کیپٹن جيرش روہیل خان کو دیکھتے گزر گئے تھے....

بمشکل ہی اپنے ڈر کو چھپایا تھا اُسنے ورنہ پسینے کی بوندیں صاف نظر آ رہی تھی اُسکے ماتھے پر.. "آؤ آؤ جانِ من آؤ !!! چہرے کو درست کرتے ہوئے وُہ خباثت سے بولا. ناگواری جیری کے انگ انگ سے نظر آنے لگی تھی.......

"بائے دا وے کبھی سوچا نہیں تھا اتنی جلدی تُم میرے سامنے ہوگی! خباثت سے وُہ بولا... 

"کیوں آج میرے حوالے خود کو سپرد کرنے آئی ہو نہ ؟ آنکھوں میں ہوس پن لیے اُسنے اُسکی طرف آنکھں دبائی ... وُہ خاموش بنی اُسکی ہے تکی باتوں کو سنتے رہی...........

"چل آج میں تُجھ پر ایک انکساف کرتا ہوں ایک راز تُجھے بتاتا ہوں جو صرف مجھے تیرے شوہر نامراد کو ہی پتہ ہے... آج تجھکو بھی اُس راز سے آشنا کراتا ہوں...

"میں ہوں سعد احمد یعنی تیرے باپ کو مارنے والا !! چلا کر جیری کو بتایا گیا تھا ایک آنسوں اُسکی آنکھوں سے ٹوٹ کر گرا تھا جسکو بے مول نہیں ہونے دیا تھا اور وہ تھا محسین خان جسکے لیے اپنی بہن کا ایک قطرہ بھی امرت کی طرح انمول تھا... آنکھوں کے نیچے ہاتھ کیے محسین نے جیری کی طرف دیکھتے نہ میں گردن ہلائی تھی.. اور اُسکے آنسوں کو اپنے سر پر بالوں میں جذب کیا تھا.....

مسٹر ایکس نے حیرت سے محسین کو دیکھا نہ جانے وُہ کب یہاں پہنچا تھا....

تیری پھوپوں کو سرے عام بے عزت میں نے کیا اُسکی عزت کا جنازہ میں نے سرے عام نکالا تھا لیکن نہ جانے وہ گندی سے گالی دیتے ہوئے بولا... 

ایک طوفان کی زد کی وجہ سے وہ بچ گئی اور اپنے عاشق کے ساتھ بھاگ گئی .. برسوں سے جلی آگ جو ہمارے تمہارے خاندان کے درمیان تھی وُہ یوں بجھنے نہیں والی تھی میں کچھ سال تک فرانس میں رہا وہاں پر میں نے سرجری کروائی اپنی اور انڈیا واپس آ گیا یہاں آ کر میں تلاش میں تھا کہ کوئی تو مجھے خان حویلی سے ملے اور میری تلاش زیادہ طویل نہیں تھی مجھے پتہ چلا کہ خان حویلی کی شہزادی صاحبہ جو لوگوں کی نظروں میں میری بیوی تھی لیکن میری نظروں میں ایک طوائف زادی تھی پتہ ہے کیسے ؟ دور کھڑے سمعان احمد کی رگیں پھٹنے کو تھی...

اپنی بات بول کر اُس خبیث نے قہقہ لگایا تھا "ھاھاھاھا !!! کیونکہ شادی کی پہلی رات ہی میں۔ نے اسکو طلاق دے دی تھی ہاں ایک رشتا تھا میرا اور اُسکا اور وہی رشتا تھا جو میں ........؟؟؟

"انف انف !!!! شیر کی دھاڑ پورے جنگل میں گونجی تو فضاں میں خاموشی چھا گئی تھی.. سب نے آواز کے تعاقب میں دیکھا تھا جہاں شایان عامر اور سمعان احمد کھڑے تھے اور اُنکے ساتھ ایک شخص اور تھا جسکو وُہ اچھے سے پہچان گیا تھا.......

......................…...💕💕💕💕

"مسٹر ایکس !!! آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جنگل کا بادشاہ دھاڑا تھا..... 

"اگر ایک لفظ بھی اور نکالا تو گدّی سے زبان ہی کھینچ لوں گا!!!! جس پر مسٹر ایکس کا کھوکھلا قہقہ بلند ہوا "ھاھاھاھا ھاھاھاھا ........

"یو نو ایک کہاوت تو سنی ہی ہوگی " کسی کے ساتھ کچھ غلط کر کے اپنی باری کا انتظار ضرور کرنا" سچّی یہ کہوات تُم پر سوٹ کرتی ہے چچچچچچ .... ابکی بار شایان نے تیر چھوڑا تھا

"ہاہاہاہا ہاہاہا یہ تُم مجھے بول رہے ہو ؟؟ میں مسٹر ایکس ہوں مسٹر ایکس !!! میرا کوئی بھی کچھ نہیں بگاڑ سکتا اور اگر میں چاہوں تو بہت کچھ کر سکتا ہوں.... ہنستے ہوئے مسٹر ایکس نے کہا تھا ...

"چار دن کی چاندنی پھر اندھیری رات " !!!! آنکھوں میں لہو لیے عامر چلّایا تھا آج یہ سامنے کھڑا شخص اُسکا باپ نہیں بلکہ ایک دہشت گرد کھڑا تھا جو نہ تو باپ بننے کے قابل تھا اور نہ ہی عزت کے .... 

"اے آدم ذات میری بد دعا ہے تیرے حق میں کہ وہ دن دور نہیں جب تیری اولاد تُجھے مارے گی وہ دن دور نہیں جب تو پانی مانگے گا اور تُجھے نہیں ملے گا وہ دن دور نہیں جب تو موت مانگے گا لیکن آسانی سے نصیب نہیں ہوگی اور وہ دن دور نہیں جب تُجھے نا تو کفن میسّر ہوگا نا مٹّی تُو ہوا بن کر تا قیامت بھٹکے گا...... میری بد دعا ہے " ایک دم اُسکے کانوں میں فردوس کی گونجتی ہوئی چیخیں بازگشت کرنے لگی تھی.... چہرے پر خوف در آیا تھا...

تبھی آسمان میں ہلیکاپٹر کی آوازیں سنائی دینے لگی اور پھر اس پاس سے پولیس کی گاڑیوں کے سائرن سنائی دینے لگے ......

"سن رہے ہو بارات لینے آ گئی ہے سب ویلکم کے لیے تمہارا انتظار کر رہے ہیں.. طنزیہ مسکراہٹ چہرے پر سجائے سمعان احمد ان اشارہ گیا تھا.....

سب خوف زدہ تھے .. بوس ایک آدمی نے ڈرتے ڈرتے مسٹر ایکس کو پُکارا.. مسٹر ایکس نے اشارہ کیا ہے تھا گولیوں کی بارش ہونے لگی ....

جھٹکے سے مسٹر ایکس جیری کی طرف بڑھا تھا لیکن مقابل تو ہر پوزیشن کے لیے جیسے تیار کھڑی تھی جیسے ہی اُسکی طرف بڑھا وُہ دو قدم پیچھے ہٹی اور گھوم برابر سے گذرتے مسٹر ایکس کے آدمی کو اس طرح سے مارا کہ وہ مسٹر ایکس کے ساتھ ساتھ محسین کی طرف گن کیے آدمی سے ٹکرایا تھا اور وہ تینوں ہی زمین بوس ہوئے تھے جبکہ جیری نے رفتاری دکھاتے ہوئے وُہ گن اٹھائی اور اُسکے دونوں آدمیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا.... یہ سب اتنا جلدی ہوا تھا کہ مسٹر ایکس بھی حیران تھا....

ایک گھنٹہ لگاتار گولیاں چلتی رہی تھی منیش اپنے فورس کو ساتھ لیے اس جنگل کو گھیرے ہوئے تھا.. اس ہونے کو چاروں اطراف سے پولیس نے گھیر لیا تھا.. 

سمعان نے گن ٹھیک نشانے پر لگائی ہی تھی کہ اُسکے ہاتھ میں پہنی ریسٹ واچ موبائل فون وائبریٹ ہوا اُسنے ہاتھ سے جلدی سے ٹچ کیا یہ کوئی ویڈیو کال تھی....

"نو نو بڈی!! ایسا نہ ہو ایک قدم تمہارا سب کچھ چھین لیں...

کوئی لڑکی تھی یہ جسکی صرف آواز ہی آ رہی تھی.. جلدی سے مسٹر ایکس کو چھوڑ دو ورنہ ؟؟؟ 

اپنی بات کو بول کر اُس لڑکی نے قہقہ لگایا تھا۔۔

"سٹاپ!!!! وُہ چلّایا اور سب کو روکا گیا تھا.. ایک دم فضا میں خاموشی چھا گئی تھی... سب تھم گیا تھا ایک دم...

"تُم کون ہو ؟ پہلے ہی سب اُسکی آواز پر اُسکے جانب متوجہ تھے جبکہ اب پریشانی سے سمعان کے تنے ہوئے چہرے کو دیکھ رہے تھے 

"اسکو چھوڑو میں کون ہوں ؟ بلکہ یہ سوچو اپنی عمائمہ کی پرواہ ہے تو جلدی سے مسٹر ایکس کو چھوڑ دو .....

مسٹر ایکس اس آواز کو پہچان گیا تھا مکروہ مسکراہٹ اُسکے ہونٹوں پر رینگ گئی تھی..

"تُم نے دکھایا ہے میری جان !! خون کا اثر... دل ہی دی میں مسٹر ایکس نے سوچا تھا.....

لڑکی کے صرف لب ہی نظر آ رہے تھے... محسین اور شایان جلدی سے سمعان کے قریب ہوئے .. 

"شام !! کون ہے یہ اور کیا بول رہی ہے ؟ محسین نے ویڈیو میں جھانک کر دیکھا تھا.. جسمیں سر لب ہی نظر آ رہے تھے.....

شام کو بلکل بھی سمجھ نہیں آیا کہ کس عمائمہ کی بات ہو رہی ہے؟ "عمائمہ !!!! دماغ کے گھوڑے دوڑانے لگا .......

"تیس سیکنڈ سوچتے سوچتے ایک دم ہی اُسنے جیرس کو دیکھا تھا..

"نہیں نہیں دیئر نہیں !!!! چلو اتنا نا سوچو میں تمہاری پریشانی دور کرتی ہوں یہ بول کر اُسنے عمائمہ کی طرف کیمرہ گھمایا گیا تھا.....

ماتھے سے بہتا خون آنکھوں میں آنسوں جبکہ منہ پر کپڑا باندھا ہوا تھا... اسکو کرسی سی باندھی گئی تھی...

"یہ یہ تو آپی کی دوست ہے !! محسین جلدی سے بولا جیری جو اُن تینوں کو ہی نا سمجھی سے دیکھ رہی تھی دوست بولنے پر اُسنے عامر کی طرف دیکھا سب کے چہرے پر سے ہوائیں اُڑی ہوئی تھی...

وُہ ابھی سمعان کی اور بڑھتی کہ ایک دم گولی چلائی گئی تھی اور جیری کے پیٹ میں جا لگی 

گولی کی آواز اور جیری کے منہ سے نکلنے والے الفاظ دونوں کی اواز بلند تھی.....

"شام مم م م م م !!!! اور ایک دم سکوت طاری ہو گیا آواز دم توڑ گئی 

"جیری ی ی ی ی ی !!!!!!! وُہ تینوں بے اختیار چلائے تھے جبکہ شام تو مجسمہ بن گیا تھا ....

یہ سب صرف کچھ پل۔کا کھیل تھا محسین شایان اور عامر تینوں جیری کی طرف لپکے 

"آ آپی آپی آپی !! پلز آنکھیں کھولیں پلز آپی !! آنکھوں سے بے تحاشہ آنسوؤں دل اُسکے جیری کی آنکھیں بند ہو رہی تھی عامر نے اُسکے تڑپتے وجود کو گھٹنے پر رکھا تھا وُہ رو رہا تھا بہت زیادہ 

جیری کے پیٹ سے بھل بھل خون نکل رہا تھا اُسکا پورا ہاتھ خون سے سرخ ہو گیا تھا......

وُہ تینوں ہی بہت رو رہے تھے..!! جیری نے بند ہوتی آنکھوں سے بلیو ٹوتھ دبائی  درد بہت شدید تھا لڑ کھڑاتی آواز میں بولی آنکھوں سے درد کی وجہ سے آنسوؤں نکل رہے تھے جبکہ نگاہ دور کھڑے مجسمہ بنے شام پر ٹھہری ہوئی تھی..

"م منیش ج جہ جلدی س سے م میرے ا اپارٹمنٹ پ پر پو پہنچے !! لڑکھڑائے آواز میں بمشکل ہی وُہ بول پا رہی تھی جبکہ سانسیں تیز تیز ہونے لگی ...

"مسٹر ایکس !! خون آلود نظروں سے عامر نے مسٹر ایکس کو دیکھا اور جیری کے ہاتھ سے چھٹی ہوئے گن کو اٹھا کر کئی فائر کر ڈالی وُہ جب تک گولی چلاتا ہے رہا تھا جبکہ گولی ختم نہیں ہوئی تھی....

چھلنی ہوتے وجود کے ساتھ فردوس کے الفاظ گونجے "وہ دن دور نہیں جب تیری اولاد تُجھے مارے گی" اور وہی ڈھے گیا نہ کوئی پوچھنے والا تھا نہ کوئی رونے والا تھا .

جیری کے ارد گرد سب ہے تھے بس ایک شخص کے علاوہ اور وُہ تھا سمعان احمد جسکو ہوش نہیں تھا وُہ تو اس دنیا میں ہی نہیں تھا.. فلم بن کر بیتے لمحوں میں کھویا ہوا تھا.. ہر ایک لمحہ اُسکے سامنے چل رہا تھا اُسکے جب جیری کی درد بھری آواز اُسکے کانوں میں گونجی

مر گئی ہوں یا زندہ ہوں میرے بارے میں..! 
        خدا کرے تجھے اب اتنی بھی خبر نہ ملے.! 
       خدا کرے تو میری یاد میں خاک چھانے 
        خدا کرے تجھے میں خاک میں بھی نہ ملوں
چھوڑ جانے کا دکھ اتنا نہیں 
کوئی ایسا تھا جس سے یہ امید نہ تھی
میرے خیال سے اب ہم 
تیرے خیال میں بھی نہیں
یہ بھی اچھا ہے کہ ہم اچھے نہیں 
کسی کو دکھ تو نہیں ہو گا ہم سے بچھڑنے کے بعد
بدل دے گے اپنی زندگی اس طرح 
دیدار تو دور لوگ بات کرنے کو بھی ترسے گے
‏عجب سال ہے ،نہیں ایک پل بھی پُرسکون 
‏لکھ لکھ کر تھک گئے 
إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّـا إِلَيْهِ رَاجِعونَ

ہر لفظ میں اتنا درد اتنی اذیت تھی کہ ہر شخص کی روح کانپ اُٹھی تھی.. آں ں ں !! درد کی شدّت سے جیری درد سے بلبلائی اور اپنے روتے ہوئے بھائ کو دیکھا جو بہت رو رہا تھا....

"روتے ہوئے اپنے پیٹ سے ہاتھ ہٹایا اور خون سے سُرخ ہاتھ اپنے بھائی کا ہاتھ تھاما تھا...

"ہلکے سے مسکرائی اُسکی مسکراتی ہوئی گلابی آنکھوں میں چھپا درد عامر جیری کے ہاتھ کو پکڑ کر رونے لگا....

"ا عامر ن نہیں ر رونا م میں ہ ہمیشہ ت تیرے س ساتھ ہوں.. ع عمائمہ ک کا خیال رکھنا.....

پھر سُرخ آنکھوں کا رخ جیری نے اُن دونوں کی طرف کیا ...

"م محسین م میری ب بہن ک کو کچھ ن نہیں ک کہنا و وُہ تھ تھوڑی نادان ہے ض ضدی ہے ل لیکن ب بہت اچھی ہے و اُسکی ه ہر غلطی کو نظرانداز کر دینا.....

شایان کا ہاتھ پکڑ کر اپنے سر پر رکھتے ہوئے اُسنے درد سے آنکھیں  موند لیں اور آخری الفاظ بول کر خاموش ہو گئی تھی...

"شانی اُنکا خیال رکھنا !!!! ایک  دم ہاتھوں کی گرفت ڈھیلی پڑی تھی اور جانب ڈھے گئی تھی.....

"آپی ی ی !! جیری ی ی ی ...... چیخوں کی آواز۔ نیوز جنگل کو  رونے پر مجبور کردیا تھا۔۔۔

سکتا ٹوٹا تھا بیختیار وُہ جیری کی طرف بھاگا تھا ..

اور اُسکے نڈھال وجود کو اٹھا کر باہر بھاگا ....

رونے میں حواس سلب ہو گئے تھے اُن تینوں کے کسی کو بھی یہ خیال نہیں آیا کہ اسکو اٹھا لیں...

اب محسین اور شایان بھی اُسکے پیچھے ہی بھاگے تھے جبکہ عامر وہی بیٹھا کہ بیٹھا رہ گیا تھا....

.......................💕💕💕💕

اسپیکر میں کیپٹن جیری کی آواز ابھری تھی ایس ایچ او منیش سیدھا کھڑے ہو گئے " جی جی میم کیا آرڈر ہے ؟ اُسنے جلدی سے پوچھا.. جو کچھ کیپٹن جیری نے بتایا تھا وُہ اُس پر ایکشن لیتے ہوئے اپنی فورس کے کچھ آدمیوں کو لے کر وہاں سے نکل گیا تھا ایک گھنٹے میں وُہ جیری کے اپارمنٹ پہنچا اور اسکو چاروں طرف سے گھیر لیا گیا... کچھ آدمیوں کو باہر ہی کھڑا رہنے کا بول کر وُہ اندر چلا گیا ہر طرف سکوت پھیلا ہوا تھا .. چھپتے چھپاتے آخر کار وہ اُس کمرے ٹک پہنچ ہی گیا تھا جہاں اُس لڑکی نے عمائمہ کو بند کیا ہوا تھا.. 

ہلکا سا دروازہ کھلا ہوا تھا منیش نے اندر کو جھانک کر دیکھا وہاں اُس لڑکی کے علاوہ اور کوئی دوسرا آدمی نہیں تھا.. جھٹکے سے دروازہ کھولا تھا اور بولا.....

"مس آفیرا سرینڈر کر دو اپنے آپ کو پولیس کوفٹ ار!! گن تانتے ہوئے چلّایا وُہ ایک دم گھبرا گئی تھی لاکھ بہادر سہی لیکن وہ اس کھیل میں کھلاڑی نہیں تھی.....

کانپتے ہوئے اُسکے ہاتھ سے گن نیچے گر گئی تھی۔ آنکھیں پھاڑے وُہ منیش کو ہے دیکھنے لگی....

منیش نے لیڈیز کانسٹیبل کو اشارہ کیا تو انہوں نے آگے بڑھ کے عمائمہ کو کھولا تھا اور اسکو ساتھ لے گئے جبکہ افیره کو ساتھ لیے وُہ ایس آئی ڈی کوارٹر پہنچا تھا.......

..............................💕💕💕💕💕 

وُہ اندھا دھند گاڑی چلا رہا تھا اسکو نہ ٹریفک کا ہوش تھا نہ کسی کی پرواہ وُہ جلد از جلد ہاسپٹل جانا چاہتا تھا... وُہ دس منٹ میں ہاسپٹل کے کوریڈور میں کھڑا اپنی سانسوں کو گن رہا تھا...

ہر کام کو شایان اور محسین نے سمبھالا ہوا تھا ایک ایک منٹ وہاں پر موجود ہے شخص کا کانٹوں پر کٹ رہا تھا... 

"اللہ جی !!! آنکھوں مینائے آنسوؤں کو چھپانے کی سعی کرتے اُسنے ہاسپٹل کی دیواروں کو دیکھا....

اُسکے پاس تو الفاظ بھی نہیں تھے خالی خالی نظروں سے دروازے کو دیکھتے دل میں صرف ایک ہی دعا تھی کہ جیری کو کچھ نہ ہو !! 

دور کھڑے شایان نے اپنے ابتر حالت میں بیٹھے دوست کو دیکھا جو خالی خالی نظروں سے دروازے کو دیکھ رہا تھا....

آپریشن جاری تھا . وُہ تینوں کھڑے آپریشن ختم ہونے کا انتظار کر رہے تھے جب اچانک درمیان میں ہی آپریشن روم کا دروازہ کھلا اور ایک ڈاکٹر باہر نکلا 

وُہ تینوں جلدی سے ڈاکٹر کی اور بڑھے تھے...

"ڈاکٹر !! اب میری بہن کیسی ہے ؟ دھکڑتے دل کے ساتھ محسین نے پوچھا 

"مسٹر محسین خان !!
Look, you have already delayed bringing the patient here. The blood has flowed from his stomach and the blood of his group is not available in our hospital blood bank, so please arrange the blood as soon as possible.  You only have one hour.  hurry up and do whatever it takes..

(دیکھو آپ نے پہلے ہی مریض کو یہاں لانے میں دیر کر دی ہے۔  اس کے پیٹ سے خون بہہ چکا ہے اور اس کے گروپ کا خون ہمارے ہسپتال کے بلڈ بینک میں دستیاب نہیں ہے، لہٰذا جلد از جلد خون کا بندوبست کریں۔  آپ کے پاس صرف ایک گھنٹہ ہے۔  جلدی کرو اور جو کچھ بھی ہو وہ کرو)

ڈاکٹر نے اُنکو بلڈ گروپ بتایا اور وہاں سے جانے لگا تھا کہ کچھ سوچتے ہوئے واپس پلٹا اور محسین کی طرف دیکھتے ہوئے سوال کیا

Is the patient(sister) married?

کیا مریض شادی شدہ ہے؟

محسین اور شایان نے بے اختیار سمعان کی طرف دیکھا تھا اور پھر بولا 

Yes !  This is the patient'(sister)s husband..

"یس!! یہ مریض یعنی (بہن) کے شوہر ہیں...

"اوہ ہ ہ !! ڈاکٹر نے سمعان کی طرف دیکھتے ہوئے گردن ہلائی اور وہاں سے چلا گیا.....

گھر پر فون کر دیا گیا تھا رحمان صاحب ایک گھنٹے سے پہلے ہی ہاسپٹل پہنچ گئے تھے... جیری کو بلڈ دے دیا گیا تھا

مستقل ساڑھے چھ گھنٹے آپریشن ہونے کے بعد صبح کے نو بجے دروازہ کھلا اور ڈاکٹر باہر نکلے.....

اس دوران سب بڑے ہاسپٹل میں آ گئے تھے اسماء بیگم کا رو رو کر بُرا حال تھا عامر کا کوئی اتہ پتہ نہیں تھا ایک ایک منٹ اُنکا جس اذیت سے گزر رہا تھا وہی جانتے تھے....

کیا جیری بچ پائے گی ؟ یا پھر وہ آخری منزل طے کرے گی ؟

کیا جیری کا تحمّل سمعان کا عشق بن جائے گا ؟
کیا اُن دونوں کا عشق تحمّل عشق کہلائے گا ؟
..............................،💔💔💔💔💔

جلدی سے پڑھ کر بتائے کیسی لگی آج کی قسط ؟
اگلی قسط انشاءاللہ بہت جلد شائع ہو جائے گی 
🤗🤗🤗🤗


   0
0 Comments